01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 18
آں چست
از روز میری
قسط نمبر18
بلیک پٹیالہ شلوار پہ ہلکے گلابی رنگ کی قمیض جو گھٹنوں سے تھوڑا اوپر تک تھی جسکا گلا موتیوں سے نفاست میں بنایا گیا تھا، بالوں کو کھلا' کمر پہ پھیلا رکھا تھا، کانوں میں چھوٹے آویزے، گلے میں کالے رنگ کا شفون کا دوپٹہ اور پیروں میں چھوٹی ہیل والی کالی چپل۔
آئینے میں اپنا عکس بغور دیکھتے وہ مسکرا دی تھی۔ شرم آلود مسکان اور لبوں پہ مبہم دلستانی مسکراہٹ، گلابی دودھیا مائل رنگت گلابی رنگ میں اور بھی نکھر آئی تھی۔ پری پیکر مشائم بہت پیاری اور حسین لگ رہی تھی۔
"آہاں اتنا بن ٹھن کے کہاں کی تیاری ہے؟؟"۔ فروا جو اس دم روم میں داخل ہوئی مشائم کو یوں بنا سنورا دیکھ کر ششدر رہ گئی۔
"احد سے ملنے جا رہی ہوں"۔ فروا کی طرف گھومتے مشائم نے جواب دیا۔
"احد سے ملنے مگر کیوں؟؟ یار تمھیں پتہ ہے کہ آج شام تمھیں مائیوں بیٹھنا ہے ایسے میں تم گھر سے باہر نہیں جا سکتی"۔ فروا نے سینے کے گرد ہاتھ لپیٹے اسے باور کرایا۔
"چندہ مائیوں شام کو بیٹھنا ہے ابھی تو نہیں' ہمم"۔ فروا کے مقابل کھڑے ہوتے مشائم نے اسکے رخسار کھینچے۔
"جاو شوق سے جاو اگر کسی سے ڈانٹ پڑی تو روتے ہوئے واپس مت آنا"۔ مشائم جو کلچ اٹھائے دروازے کی طرف بڑھی تھی' کو فروا نے آواز لگائی۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے"۔ مشائم نے فروا کی طرف پشت کیئے ہاتھ ہلایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"تمھاری تصویر کے سہارے
موسم کئی گزارے
موسمی نا سمجھو
پر عشق کو ہمارے
نظروں کے سامنے میں
آتا نہیں تمھارے
مگر رہتے ہو ہر پل
منظر میں تم ہمارے
اگر عشق سے ہے ملا' پھر درد سے کیا گلہ
اس درد میں زندگی
خوشحال ہے
یہ دوریاں فلحال ہیں
اوووووو"۔
احد نے سٹوڈیو میں اپنی آواز کا جادو جگا کر گانے کی ریکارڈنگ کروا دی تھی جو معمول سے بہت اعلی اور لاجواب ہوئی تھی۔
"بہت زبردست احد' مائیڈ بلوئینگ"۔ مائیک کے سامنے بنی گلاس وال کے پار چیتس چیئر سے اٹھتے تالیاں بجانے لگا تھا۔ "احد کمال کر دیا یار تم دیکھنا ہمیشہ کی طرح تمھارا یہ گانا بھی تہلکا مچا دے گا سوشل میڈیا پہ"۔ احد ریکارڈنگ زون سے باہر آیا تب چیتس نے اسے مخاطب کیا۔
"یونہی تو نہیں اسکے فینز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا"۔ عرفان جو ریوالونگ چیئر پہ بیٹھا تھا' نے چیتس کی تائید کی۔
"یہ سب تم لوگوں کی مہربانی پہ بھی تو منحصر ہے کہ تم لوگوں نے مجھے اتنی اہمیت دی"۔ احد نے سینے پہ ہاتھ رکھتے متبسم انداز میں کہا۔
"چلو ہوٹل چلتے ہیں آج لنچ میری طرف سے"۔ عرفان اور احد کو یکجا مخاطب کرتے چیتس نے کہا۔
"نہیں یار میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے تم جانتے ہو میری شادی ہے اتنی ساری تیاریاں باقی ہیں اور میرے پاس وقت بالکل بھی نہیں ہے"۔ احد نے نفی کرتے مزید کہا۔
"چل ٹھیک ہے ہم تیرا وقت برباد نہیں کرتے"۔ بولتے ہی چیتس نے احد کے دائیں شانے پہ تھپکی دی۔
"وش یو آ ویری بلیسڈ لائف ود یور وائف"۔ عرفان بھی چیئر سے اٹھتے اس طرف آیا۔
"تھینکس"۔ احد نے پرمسرت انداز میں عرفان کے گلے لگا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشائم کہاں جا رہی ہو؟؟"۔ عمارہ بیگم جو اپنے روم سے نکل کر کچن کی جانب قدم رکھ رہیں تھیں' نے انٹرنس کی جانب بڑھتی مشائم کو ٹوکا۔
"او گاڈ"۔ مشائم نے خفگی میں سانس خارج کی۔ "ماما کہیں نہیں یہیں ہوں لان میں جا رہی ہوں"۔ عمارہ بیگم کی طرف گھومتے مشائم نے جبرا مسکان لبوں کی زینت کی۔
"اتنا بن ٹھن کے؟"۔ عمارہ بیگم نے حیرانگی سے اسکے ظاہری حلیے کو دیکھا۔
"ج ج جی ماما وہ بس ایسے ہی"۔ مشائم پس و پیش اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اٹکیلیاں کرنے لگی تھی۔
"اپنے روم میں جاو بیٹا تم جانتی ہو تمھاری شادی ہے اور شام میں مائیوں بیٹھنا ہے ایسے اچھا نہیں لگتا ویسے بھی ابھی تمھاری دادو بھی آ جائیں گیں تم جانتی ہو وہ کتنے پرانے خیالات کی ہیں تمھیں یوں آزاد گھومتا پھرتا دیکھ باتیں بنائیں گیں"۔ عمارہ بیگم مشائم کے قریب آ کر کہنے لگیں۔
"ایک تو میں ان کا کچھ نہیں کر سکتی"۔ مشائم نے بے زارگی سے کہا۔
"مجبوری ہے بیٹا خیال رکھنا پڑے گا اس گھر کے سکون کیلیئے"۔ مشائم کی تھوڑی تلے ہاتھ رکھے عمارہ بیگم نے کہا۔
"جی ماما"۔ مشائم نے چڑ کر کہا۔
"میری اچھی بیٹی چلو اپنے روم میں جاو' ہم"۔ مشائم کو بولتے ہی عمارہ بیگم کچن کی جانب بڑھیں۔
مشائم بھی عمارہ بیگم پہ چور نظر ڈالتے اپنے روم کی جانب ہلکے قدم رکھنے لگی جبی عمارہ بیگم کو کچن میں داخل ہوتا دیکھ مشائم فورا سے جوتے ہاتھ میں اٹھاتے انٹرنس کی جانب دوڑی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ماما کو بھی پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے بھئی دادو نا ہو گئیں کوئی راکٹ ہو گئیں یا دیو یا چڑیل' پتہ نہیں سب اتنا کیوں ڈرتے ہیں دادو سے؟؟ حد ہے بھئی منہ میں تھوڑی نا ڈال جائیں گیں؟ اب ان کے ڈر سے جینا تو نہیں چھوڑا جا سکتا نا"۔ مشائم کار ڈرائیو کرتے خود سے ہمکلام تھی۔
بلا وساطت مشائم کا فون چنگارا جس پہ اسنے دائیں کان میں ائیر پاڈ لگاکر کال ریسیو کی۔
"ہاں فروا بولو؟"۔
"مشی یار تم کہاں ہو؟؟"۔ دوسری طرف فروا کی آواز مدھم تھی۔
"میں؟ بتایا تو تھا یار فروا کہ احد سے ملنے جا رہی ہوں کیوں کوئی پرابلم ہے؟"۔ مشائم نے تصدیق کی۔
"یار میں کیسے سنبھالوں گی سب؟"۔ فروا فکرمند سی ہوئی۔
"تم ٹینشن نا لو ریلیکس رہو اگر کسی کو نا بھی پتہ چلنا ہوا تو تمھارے اس ڈھائی چار کے چہرے کو دیکھ کر شک کیا یقین میں مبتلا ہو جائیں گے"۔ مشائم نے چڑ کر کہا۔ "کیا ہو گیا ہے تمھیں؟ میں گھر سے بھاگ کے نہیں جا رہی ہوں احد سے ملنے ہی جا رہی ہوں"۔
"جانتی ہوں یار' اچھا تم جلدی واپس آ جانا"۔ فروا نے باور کرایا۔
"ہاں ٹھیک ہے چلو رکھو فون' بائے"۔
فروا کی طرف سے رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
جھیل کے پاس سے گزرتے کار میں چلتے اے سی سے پیدا ہوئی خنکی کے باوجود بھی کار میں سخت گرمائش محسوس ہونے لگی تھی۔
"یہ اچانک مجھے گرمی کیوں لگ رہی ہے ۔۔۔ اے سی تو آن ہے"۔ مشائم نے خود کی تسلی کی خاطر اے سی دوبارہ سے چیک کیا۔
گرمی سے نجات کی صورت میں اسنے اپنی جانب والا شیشہ کھول دیا جس سے ہوا کی جگہ درگندھ کار میں داخل ہونے لگی تھی۔ مشائم نے فورا سے شیشہ اوپر کو کیا اور کار کی سپیڈ تیز کر دی۔
کچھ ہی مسافت پہ مشائم اپنی طرف آتا ہیوی ویلر دیکھ کر بوکھلا گئی' ایسا زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ سامنے سے آتا ہیوی ویلر دیکھ کر مشائم کے پسینے چھوٹے ہوں۔ اپنے بچاو میں مشائم نے خود نویس کار کا سٹیرینگ بائیں جانب موڑ دیا تھا جس سے اسکی کار درخت میں جا لگی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"یا اللہ تو حفاطت فرما"۔ احد جو کار ڈرائیو کر کے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا' کا دل جیسے مٹھی میں جکڑ لیا گیا تھا جس سے اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھی۔
احد کے چہرے پہ اوس کے ننھے قطرے فورا سے آ ٹھہرے تھے۔
"یہ اچانک مجھے پسینہ کیوں آنے لگا ہے؟"۔ احد نے کار کی بریک پہ یکلخت پیر رکھا پھر پیشانی پہ ہاتھ پھیرا۔
بے چینی میں سانس خارج کی پھر دوبارہ سے کار کے بےجان وجود میں جان ڈالتے گیئر بدل کر سپیڈ بڑھائی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"سمعان آپکی احد سے بات ہوئی؟"۔ سمعان صاحب ہال کے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھے اخبار کے اوراق ٹٹول رہے تھے جب راضیہ بیگم چائے کی ٹرے لیئے اس طرف آئیں۔
"نہیں میں نے کال کی تھی مگر اسنے اٹینڈ نہیں کی شاید بزی ہے"۔ سمعان صاحب نے ہنوز صفحات پہ نظر جماتے کہا۔
"اچھا"۔ ٹیبل پہ ٹرے رکھتے راضیہ بیگم سمعان صاحب کے دائیں ہاتھ پہ رکھے چھوٹے صوفے پہ بیٹھ گئیں۔
اس دم سمعان صاحب کا فون چنگارا۔ اخبار سائیڈ پہ رکھتے سمعان صاحب نے سامنے ٹیبل پہ رکھا فون اٹھا کر سکرین کو دیکھا جہاں انجان نمبر درخشاں تھا۔
"ہیلو"۔ پراسرار خیال سے الجھتے سمعان صاحب نے کال ریسیو کی۔
"وٹ؟"۔ سمعان صاحب کو جس خبر سے مطلع کیا گیا تھا اس خبر سے سمعان صاحب کے سر پہ آسمان آ گرا تھا۔
"سمعان کیا ہوا؟؟"۔ سمعان صاحب ہڑبڑاہٹ میں صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے جسکی تقلید میں راضیہ بیگم بھی نشست چھوڑتے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد چار گھنٹے کی تاخیر سے اپنی حویلی کے باہر پہنچ گیا تھا۔ گارڈ نے گیٹ کھولا تو احد نے اپنی کار پورچ میں پارک کی' کار سے نکلتے کار لاک کی پھر اپنے قدم انٹرنس کی طرف بڑھتی راہداری پہ رکھنے لگا۔
"اسلام و علیکم بھابی"۔ انٹرنس پار کرتے احد نے متضاد سمت سے آتی حرا کو مخاطب کیا۔
"و علیکم اسلام احد تم کب آئے؟؟"۔ حرا نے خوش کن لہجے میں کہا۔
"بھابی بس ابھی ابھی ہی آیا ہوں ماما پاپا شہریار بھائی کہاں ہیں؟ نظر نہیں آ رہے"۔ ادھر ادھر جھانکتے احد نے سوال کیا۔
"شہریار تو آفس گئے ہیں اور انکل آنٹی بتا کر نہیں گئے شاید انکل اپنے کسی فرینڈ کی طرف گئے ہیں آنٹی کو لے کر؟میں سو رہی تھی اس وجہ سے علم نہیں ہے"۔ حرا نے اندازہ لگایا۔
"اچھا اور مشائم' مشائم آئی تھی کیا میری عدم موجودگی میں؟"۔
"نہیں مشائم تو نہیں آئی' اچھا تم فریش ہو لو میں تمھارے کھانے کیلیئے کچھ لے کر آتی ہوں"۔ احد کو بولتے ہی حرا کچن کی جانب بڑھی۔
احد تھکے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتا اپنے روم میں چلا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ٹاول سے سر رگڑتا احد ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
"شکر ہے مشو نہیں آئی ابھی تک ورنہ سوال پہ سوال کر کے خود بھی پریشان ہوتی اور مجھے بھی کرتی"۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے احد مطمئن سا سوچ میں ڈوبا۔
ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھاتے احد نے بالوں کو سنوارا پھر برش جگہ پہ رکھتے پرفیوم کی شیشی اٹھا کر گلے کے گرد چھڑکاؤ کیا۔ پرفیوم جگہ پہ رکھتے احد بیڈ کی طرف آیا اور بیڈ پہ رکھا فون اٹھا کر انلاک کیا پھر کال لاگ سے مشائم کا نمبر ڈائل کیا۔
"دا نمبر یو ہیو ڈائلڈ از پاور آف"۔
"مشو کا نمبر کیوں بند جا رہا ہے؟"۔ احد کا ذہن منفی سوچ سے الجھا جو اسنے فورا سے جھٹک دی تھی۔
"احد"۔ تعاقب سے حرا کی آواز ابھری تو احد فی الفور دروازے کی جانب گھوما۔
"بھابی کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟؟"۔ حرا کی غیر ہوتی حالت احد کو کھٹکنے لگی تھی۔
"احد وہ۔۔۔۔"۔ آنسوؤں نے حرا کی آواز کو اپنے شکنجے میں لیا تھا جس سے اسکی آواز حلق میں دب کے رہ گئی تھی۔
"بھابی ہوا کیا ہے بتائیں تو سہی"۔ احد کا دل زور سے دھڑکنے لگا تھا۔
"اح ح حد ۔۔۔۔ و و وہ ۔۔۔۔ مشائم۔۔۔"۔ حرا نے بمشکل الفاظ کو جوڑتے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔
"مشائم' کیا ہوا مشائم کو؟ آپ رو کیوں رہی ہیں بھابی؟ خدا کا واسطہ ہے بتائیں مجھے کیا ہوا ہے مشو کو؟"۔ "مشائم" کے نام پہ احد کا دل پسلیاں توڑ کر باہر نکل آنے کو بےقرار ہوا۔
"مشائم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے"۔
"یہ تعویز اتار دو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا"۔ احد کا ذہن ماضی کی دیواروں سے سر پٹخنے لگا تھا۔
"کیا؟؟"۔ احد جھٹکے سے دو قدم پیچھے کو ہوا۔ "مشائم کا ایکسیڈنٹ؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا"۔ احد بوکھلاہٹ میں روم سے باہر کی طرف دوڑا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆